احمد فراز نہیں رہے .....
یکینن ایک بڑا شایر ..ہِندوستان کا یا کہ پقِستان کا....نہیں پُورے بررے سگیر کا ...نہیں ...اَدب کی دُنیا کا ایک بڑا شایر॥
بتور اکیدت کچھ شیر اُنکے گُن گُنا لیں ...
اَب کے ہم بِچھڑے تو شاید کبھی خواباُں میں مِلے
جیسے طرح سُوکھے ہوئے پھُول کِتابوں میں مِلے
دُوںڈھ اوجڑے ہُ اے لوگوں میں وفا کے موتی
یے خذانے تُجھے مُمکِن ہے خرابوں میں مِلیں
تُو خُدا ہے ن میرا عشق فرِش توں جیسا
دونوں اِ ںساں ہیں تو کیوں اِتنے ھِجابوں میں مِلیں۔
یا کہ ایک دُوسری غزل کے کچھ شیر --
اَب اؤر کیا کِسی سے مراسِم بڑھائے ہم
یہ بھی بہُت ہے تُجھ کو اَگر بھول جائیں ہم
سہرا اَے زندگی میں کوئی دوسرا ن تھا
سُنتے رہے ہیں آپ ہی اَپنی سدایّں ہم
اِس زندگی میں اِتنی پھراگت کِسے نصیب
اِتنا ن یاد تھا کہ تُجھے بھول جائیں ہم
تُو اِتنے دِل جُدا تو ن تھی اَے شبے پھِراک
آ تیرے راستے میں سِتارے لُٹااےں ہم
وو لوگ اَب کہاں ہیں جو کل کہتے تھے فراز
ہے ہے کھُدا ن کر دا تُجھے بھی رُلااےں ہم
मंगलवार, 26 अगस्त 2008
मंगलवार, 15 जुलाई 2008
پریم چںد گاںدھی کی قلم سے2
گذشتہ ہفتے ہم نے نادر شاہ کے حوالے سے تاریخ اور ادب کی بات کی تھی۔ ایک بار پھر اسی راہ پہ چلتے ہوئے دو ایسی کتابوں کا ذکر کریں گے جو حال ہی میں ہندی میں شائع ہوئی ہیں اور ادب کی دنیا میں خاصی چرچامیں ہیں۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ دونوں ہی کتابیں ہماری مشترکہ تاریخ کی سب سے خوبصورت عمارت یعنی تاج محل کو مرکز بنا کر لکھی گئی ہیں۔ پہلی کتاب ہے ”تاج محل۔ بے قراری کا بیاں“ اور اسے لکھا ہے ہندوستان کے جانے مانے کالم نگار اور فلم نقاد جئے پرکاش چوکسی نے۔ وہ گذشتہ 24برس سے ہندی کے ایک بڑے اخبار ”دینک بھاسکر“ میں روزانہ فلموں پر ”پردے کے پیچھے“ کالم لکھ رہے ہیں اور ان کا یہ کالم اس قدر لوگوں میں مقبول ہے کہ بہت سے قاری صرف ان کا کالم پڑھنے کے لئے ہی اخبار پڑھتے ہیں۔ سینما کے ساتھ ساتھ چوکسی سماجی مسائل کو شامل کرتے ہوئے دلچسپی جگانے والا کالم لکھتے ہیں۔
”تاج محل۔ بے قراری کا بیاں“ ایک ناول کی شکل میں ہے لیکن سیاست میں اسے ایک فلم کے سکرپٹ کے طور پہ لکھا گیا تھا۔ یہ تاج محل کی تعمیر کی جنونی کہانی ہے کہ کس طرح ایک خوابیدہ عمارت تیار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ایسی فلم بنانے کے لئے جو بجٹ چاہیے وہ کوئی بھی جتانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ وجہ یہ بھی ہے کہ اس فلم کو بنانے کا بجٹ اگرچہ ایک بار جتا بھی لیا جائے تو بھی فلم دکھانے سے اتنا پیسہ نہیں کمایا جا سکتا ہے کہ آپ مول بھی وصول کر سکیں۔ اس فلم کے سکرپٹ کم ناول کو لکھے ہوئے 30برس ہو گئے ہیں اور شاہ رخ خان تک کہہ چکے ہیں کہ اس فلم کو فی الحال بنانا ممکن نہیں، کچھ برس بعد شاید بنایا جا سکے۔ گوویند نہلانی جیسے ڈائریکٹر اور ندا فضلی سریخے قلم کار اس پر کام کرنے کے لئے راضی ہیں لیکن خدا جانے فلم کب بنے گی۔بہرحال فلم کا سکرپٹ اب ایک ناول کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ یہ ایک قسم کا تجربہ ہے جس میں تاریخ افسانے کی شکل لے لیتی ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ تاج محل کو کن حالات میں اور کیسے بنایا گیا ہوگا اور کیا کیا حادثے پیش آئے ہوں گے لیکن ہم سب اتنا ضرور سنتے آئے ہیں کہ تاج محل کی تعمیر میں لگے کاری گروں کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے تھے۔ ”تاج محل۔ بے قراری کا بیاں“ پڑھنے کے بعد یہ احساس پختہ ہوتا ہے کہ تاج محل جیسی نایاب عمارت جنون کے بنا نہیں بنائی جا سکتی تھی۔ یوں تاج محل کو لے کر بہت سی کتابیں ہندی، اردو، انگریزی میں موجود ہیں لیکن تاریخ میں اور ادب میں جو فرق ہوتا ہے اس کے چلتے ہم تاریخ سے منہ چراتے ہیں اور ادب کو گلے لگاتے ہیں۔ میری یادداشت میں تاج محل کی تعمیر پر اس سے پہلے ایک اور ناول ہندی میں شائع ہوا تھاجس کا عنوان یاد نہیں آرہا، لیکن وہ ہمارے مشہور اور مقبول عوام قلم کار اوم پرکاش شرما نے لکھا تھا، جو کسی پاکٹ بک پبلشر نے چھاپا تھا۔ میں اس ناول کو برسوں سے تلاش کر رہا ہوں لیکن وہ نہیں مل رہا۔ خیر، جئے پرکاش چوکسی کا کام خاصی محنت اور دماغی جدوجہد کے بعد پورا ہوا ہوگا۔ یہ افسانہ 16برس کے شاہجہان یعنی شہزادے خرم اور 15برس کی ارجمند بانو کی مینہ بازار میں ہوئی پہلی ملاقات سے شروع ہوتا ہے اور عشق کی انتہا پہ جا کر ختم ہوتا ہے۔ جس میں سرزمین ہندوستان ہی نہیں دنیا کی سب سے حسین عمارت کے تعمیر ہونے کا ایسا خوبصورت اور دلچسپ آنکھوں دیکھا حال سامنے آتا ہے کہ آپ بار بار واہ واہ کہے بنا نہیں رہیں گے۔
تاج محل کی تعمیر کے لئے شاہجہان نے پوری دنیا سے فنکار بلائے تھے اور سبھی نے شاندار نقش پیش کیے تھے لیکن ایک اجنبی فنکار نے ان پردیسی فنکاروں سے پوچھا کہ وہ سات سمندر پار کر کے کالی مرچ اور مصالحے خریدنے کیوں اس سرزمین پہ آتے ہیں۔ جواب میں یہی سننے کو ملا کہ ان کی آب وہوا میں یہ نہیں ہو سکتا۔ اجنبی فنکار کہتا ہے، جس طرح پردیسی آب وہوا میں کالی مرچ کا پودا نہیں لگ سکتا اسی طرح ہندوستان کی زمین پہ پردیسی انداز کی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی۔ ہر عمارت کا ایک ایمان ہوتا ہے، ایک چہرہ ہوتا ہے، ایک روح ہوتی ہے، ایک دھڑکن ہوتی ہے۔ اس کی اپنی زندگی ہوتی ہے۔ یہ اجنبی ہی تاج کو شکل دینے والا کاریگر تھا، عیسیٰ آفندی۔ وہ سچ مچ عجیب شخص تھا جو جمنا کے کنارے زمین کو سونگھ سونگھ کے، کان لگا کر زمین کی کوئی آواز سننے کی کوشش کرتا تھا اور زمین سے پوچھتا تھا ”بتا تیرے بھیترار کس عمارت کی شکل بسی ہوئی ہے؟“ ایسا دیوانہ ہی شاید تاج محل بنا سکتا تھا۔ اس نے جب شاہجہان کو کہا کہ مکران سے سفید سنگ مرمر لایا جائے تو بادشاہ کو تعجب ہوا کہ اتنی دور سے پتھر کیسے لایا جائے؟ عیسیٰ کہتا ہے مکران کے سنگ مرمر صدیوں سے تاج کے روپ میں ڈھلے جانے کے لئے بے قرار تھے۔ پتھر خود چل کر آنا چاہتے ہیں۔ ہمیں تو صرف راستہ بتانا ہے۔ اس طرح ایک عظیم شان عمارت کی تعمیر شروع ہوتی ہے اور آج کی دنیا کے سب سے شاندار عجوبہ کی شکل سامنے آتی ہے۔
لیکن اس تعمیر میں صرف محبت میں غافل بادشاہ اور جنونی کاریگر عیسیٰ آفندی ہی نہیں ہزاروں مزدوروں کا ہنر بھی شامل تھا۔ پتہ نہیں دنیا اور ہندوستان کے کس کس کونے سے یہ ہنر مند کاریگر جتائے گئے تھے جنہوں نے 20برس میں باکمال عمارت تعمیر کی تھی۔ اتنا ہی نہیں اس تعمیر کے پیچھے شاہی خزانے کو لے کر اورنگزیب اور شاہجہان کے بیچ کتنی تقریریں ہوئیں ہوں گی، یہ سب بھی تاریخ کے بے حد دلچسپ باب ہیں، جنہیں پڑھنا اور خیالوں میں اتارنا بھی ایک نئی روشنی دیتا ہے۔ قلم کار جئے پرکاش چوکسی نے اپنے خیالوں سے عیسیٰ کا جو کردار گھڑا ہے وہ بے مثال ہے اور بے مثال ہے جہاں آراءاور عیسیٰ کے بیچ محبت کے پھول کھلنے کا خیال۔ ایک بے حد خوبصورت نظارہ ہے کہ جب تاج کی شکل کو لے کر عیسیٰ ایک ڈرامہ پھر سے زندہ کرنا چاہتا ہے۔ ممتاز کی آخری رات کو وہ برہان پور میں دیکھنا چاہتا ہے۔ جہاں آراءممتاز کی شکل میں بستر پہ لیٹ جاتی ہے، اس کے آس پاس بادشاہ، اورنگزیب اور عیسیٰ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بادشاہ ممتاز سے پوچھتے ہیں، ’بیگم تاج کی شکل کیا ہوگی؟‘ بیگم کوئی جواب نہیں دے پاتیںمحض سرہانے رکھی اور قرآن شریف اور دین الہٰی سریخے کتابوں کی طرف ایک نظر ڈال کر خاموش ہو جاتی ہیں۔ عیسیٰ کو تاج کی ایک شکل مل جاتی ہے اور وہ ایک ایسی عمارت کا تصور کرنے لگ جاتا ہے جو ذات اور مذہب سے پرے انسانی محبت کا خیال روشن کرے۔ مجھے نہیں پتہ اردو ادب میں اس قسم کی کوئی کتاب ہے کہ نہیں لیکن میری گزارش ہے کہ اگر اس کتاب کا ترجمہ اردو میں ہو تو بھارت اور پاکستان کے پڑھنے والوں کے لئے یہ ایک شاندار تحفہ ہوگا۔
تحفہ تو ہمارے اسماعیل چونارہ نے بھی دیا ہے اور وہ بھی تاج محل اور شاہجہان کے آخری دنوں کے ایک ڈرامے کی شکل میں۔ ایک بار جئے پور میں ان سے مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ لندن سے بھارت گھومنے آئے تھے۔ اخبار میں ایک خبر پڑھ کر انجمن ترقی پسند مصنفین کے ایک پروگرام میں شرکت کرنے چلے آئے تھے۔ ہمارے ساتھ انہوں نے لنچ لیا اور اس کے بعد ای میل پہ ان سے رابطہ ہوتا رہا۔ اسماعیل چونارہ کی پیدائش جنوبی افریقہ کی ہے، یوں وہ خاص ہندوستانی ہیں اور کئی برسوں سے لندن میں رہتے ہیںاور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ وہ ایک مقبول ڈرامہ نگار ہی نہیں ایک خوبصورت مصور بھی ہیں۔ ’لیلیٰ مجنوں‘ کے علاوہ گجرات میں ہوئے قتل عام پہ ان کا ڈرامہ ’اب یہ فضا خاموش ہے‘ خاصی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ ان دنوں وہ مرزا غالب پہ ایک ڈرامہ لکھ رہے ہیں۔ لیکن جس ڈرامے کا یہاں ذکر کرنا ہے وہ ہے’یادوں کے بجھے ہوئے سویرے‘ ۔ یہ ڈرامہ انگریزی میں لکھا گیا تھا۔’A River Across The Unsceen Divide‘۔ صا بر ارشادعثمانی نے اس ڈرامے کا اردو میں ترجمہ کیا اور یہ بھی ہندی رسم الخط یعنی ناگری میں چھپا ہے۔ پچھلے 3برس سے اس کے مسلسل شو ہوتے رہے ہیں اور لوگوں نے اسے بے حد پسندکیا ہے۔ اس میں کل جمع چار کردار ہیں، شاہجہان، جہاں آرائ، دارا شکوہ اور بادشاہ کا نوکر محمود۔ اورنگزیب کی موجودگی ڈرامے میں پردے کے پیچھے ہی رہتی ہے یعنی صرف اس کا ذکر ہوتا ہے۔ تاج محل کی تعمیر کے بعد شاہجہان اورنگزیب کی قید میں جیسے تیسے اپنا وقت گزار رہے ہیںاور کئی بار بادشاہ پہ دیوانگی کے دورے پڑتے ہیں تو وہ گذشتہ وقت میں جا کر اپنے خیالوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ شاہجہان کو اس قید میں کتنی تکلیف ہوئی ہوگی اس کا ایک منظر آپ دیکھئے، جب وہ اپنی بیٹی سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ’دیکھو اس عظیم ترین مقبرہ کو کتنے ہزار مزدوروں نے محنت اور مشقت کر کے اس کو تعمیر کیا۔ اسی زمانے میں گجرات میں قہر پھیلا ہوا تھا جس میں لاکھوں انسان قہرکی نظر ہوگئے تھے اور میں اس وقت اس تاج محل کی تعمیر میں کتنا منہمک تھا کہ ان باتوں پہ دھیان ہی نہیں دے پایا، لیکن اب میں تمہاری ماں کی برسی کے عرس کے موقع پر ان کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے کے لئے وہاں جا کر فاتحہ تک نہیں پڑھ سکتا‘۔
دارشکوہ سے آپ سب واقف ہیں ہی، شاہجہان کا سب سے پیارا بیٹا یا کہیں کہ اکبر مہان کی وراثت کا سچا وارث، جس نے ناجانے کتنے مذہبوں کی کتابیں پڑھیں اور آخر کار اورنگزیب نے اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے دہلی کے گلی کوچوں میں پھینکوا دئیے۔ وہی دارشکوہ ایک بار شاہجہان کے خیالوں میں داخل ہوتا ہے۔ تاج محل کے بارے میں دارشکوہ جو کہتا ہے وہ ہمارے حالات حاضرہ پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔ دارشکوہ کہتا ہے، ’ابا حضور آپ کیا دیکھتے ہیں؟ یہی نہ جو فاصلے پر تاج محل کی ایک نشانی ہے، محبت کا ایک تحفہ ہے اگر اس پر لکھا جائے تو کتابوں کے ڈھیر لگ جائیں!آپ کو اس کا احساس ہے کہ آپ نے کس چیز کی بنیاد ڈالی ہے اور کیوں اور کس پوشیدہ حقیقت نے آپ کو مجبور کیا؟ اس دنیا کی حدوں سے پرے غائب سے آپ کو الہام ہوا جس کی وجہ سے ہزاروں دعائیں پڑھی جاتی ہیں، ہزاروں حمدوں کا نغمہ گونجتا رہتا ہے اور خدا کے نام کا ورد بے شمار رہتا ہے۔ آپ اور ہزاروں آپ جیسے اپنی دعائیں التجائیں کرتے رہتے ہیں، چاہے اسے رام، ایشور، اللہ کا نام دیں۔ انہی ناموں کی تسبیح پڑھی جاتی ہے، دھیرے دھیرے بلند آواز سے اور اسی کے نام کا ورد کرتے ہوئے مقبرے کے چاروں طرف چکر لگاتے رہتے ہیں‘۔
آج جب ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ کابل میں ان لوگوں کو فدائین حملے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا جو سرحد پارکر کے محبت کے پھول کھلانے کی تمنا لیے ویزہ لینے آئے تھے یا شہر کراچی میں معصوم لوگوں کو بددماغ ہلاک کر دیتے ہیںتو تاج محل کے سامنے خونی لوگ آخر کب تک جیتے رہیں گے۔ جب خدا کے ایک ہونے کا فیصلہ ہو ہی چکا ہے تو پھر یہ قتل وخون کس کے نام پر ہو رہے ہیں۔ تاریخ ہمیں کبھی کبھار اس طرح بھی سبق دیتی ہے۔ کیا تاج محل کا تصور کرتے ہوئے ہم محبت کا پیغام نہیں پہنچا سکتے؟ جیسا کہ جئے پرکاش چوکسی اپنی کتاب کے پہلے صفحے پہ لکھتے ہیں۔
میں تاج ہوں،
میں انسانی حوصلوں اور ارادوں کی بلندگی کا پرچم ہوں،
میں تواریخ کے ورقوں میں
انسانی محبت کی یاد کا ایک کھلا ہوا گلاب ہوں
http://humshehri.com/DetailStory.aspx?ID=250
सोमवार, 26 मई 2008
پریم چںد گاںدھی کی قلم سے
سال 2008 برر اَے -سگٰر میں نئی رؤشنی کا آفتاب لیکر آیا ہے ۔ بھارت کے دانِشمںدوں اؤر اَمن پسںداُں کو بیگم بےنجیر کی شہادت سے جو صدمہ لگا تھا ، وہ پاکِستان میں اَوام کی جمہورِیت کے لیے مُسلسل ذددوذہد کے بعد جیت کے جشن کی شکل میں آیا تو سب کی جیسے برسوں کی مُراد پُوری ہو گئی ۔ دونوں بِرادر مُلکاُں میں آم اَوام یہی تو چاہتی ہے کہ تالُّکات سُدھرےں، اَمن کائم رہے اؤر ترقی کی راہ پر چلیں ۔ پِچھلے برس نیپال میں راج شاہی کے کھات مے کے بعد سے بھارت میں یہ آم چرچا کا مجمُون تھا کہ اَب دیکھنا یہ ہے کہ پاکِستان میں کب جمہورِیت کا سُورج اَپنی سُنہلی کِرنیں بِکھیرتا ہے ؟
پُورے بررے سگٰر میں بسںت کے ساتھ جمہورِیت کی پُر سُکُون ہوا چل پڑی ہے ۔ بھُوٹان میں لوکراج کائم ہو چُکا ہے ۔ تِبّت میں ذددوذہد چل رہی ہے اؤر میاںمار (برما) میں سںیُکت راشٹر سںگھ کے سیکریٹری کے ہالیا دؤرے کے بعد اُمّید بںدھی ہے کہ وہاں بھی جلد ہی اِ لیک شن ہوںگے ، جِس مے تمام سِیاسی پارٹِیاں شِرقت کریںگی اؤر یہ بھی کہ 17 برس سے क़ےد میں بںد کھاتُون اَںگ ساں سُ کی کو بھی رِہائی مِلیگی ۔
آپ خُد ہی دیکھ سکتے ہیں کہ ایشِیا کے اِس کھِت تے میں کِس کدر لوگ خُد اَپنا مُستاک بِل سںوارنے کے لیے آگے آ رہے ہیں ۔ وہ تمام تاکتےں دھیرے دھیرے ہی سہی اَوام کی کھواہِشاُں کے آگے جھُک رہی ہیں جو جمہورِیت کو بِلکُل پسںد نہی کرتی ، फ़ِر وہ چاہے راجشاہی ہو یا فوج ۔ در-اصل اِسکے پیچھے لوگوں کی مُسلسل ذددوذہد ہی نہیں دُنیا بھر کے بدلتے حالت بھی ایک وجہ ہیں ۔ اِنپھورمےشن ٹیک نولاجی کی وجہ سے پُوری دُنیا گلوبل وِل لےج ہو گئی ہے ۔ اَوام کو اِس سے مہرُوم نہیں رکھا جا سکتا اؤر اِسی لِئے دُنیا بھر کے لوگ ایک دُوسرے سے اَپنے دُःکھ درد ہی ساجھا نہیں کرتے بلکہ ترقی کیسے ہو ، اِسکو لیکر بھی اَپنے کھیالات ساجھا کرتے ہیں ۔ ژاھِر ہے لوگوں کا یہ رابتا آخرکار اِںسان کے ساتھ -ساتھ مُلک اؤر دُنیا کی ترقی کی کھواہِشاُں کو بھی مجبُوتی دیتا ہے ۔
پاکِستان کے بارے میں آپ لوگ بیہتر جانتے ہیں لیکِن میں یہاں اِس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہُوں کہ بھارت میں ہر اُس خبر کو لوگ گؤر سے پڑھتے اؤر دیکھتے ہیں جِس سے پاکِستانی اَوام کا مُستاک بِل جُڑا ہوتا ہے ۔ میں دو دپھا پاک سر زمین کا دؤرا کر چُکا ہُوں اِسلِئے میرے دوست اہباب ایسی کھبروں پے میری رائے جانّا چاہتے ہیں ۔ یقین مانِیہ ، کراچی ، مُلتان ، لاہور ، پیشاور ، اِسلاماباد یانے پاکِستان میں کہیں بھی کوئی د ہشتگردی کی کوئی واردات ہوتی ہے تو ہِندوستانی اَوام کو گہرا صدمہ لگتا ہے ۔ لوگ مُجھ سے دریاپھت کرتے ہیں ، “ کیوں پریم جی یہ سِلسِلہ کب خت م ہوگا ؟” میں جواب میں یہہی کہتا رہا ہُوں کہ جمہورِیت آ جانے دیجِیے سب ٹھیک ہو جائیگا ۔ اؤر آج پاکِستان میں جمہورِیت کا جو جشن منایا جا رہا ہے اُس میں آپ ہِندوستانی اَو وام کو بھی شامِل مانِیہ ۔ اَب لوگ مُجھ سے کہتے ہیں کے اَب تو آپکا پاکِستان آنا جانا اؤر بڑھ جائیگا ! کیا جواب دُوں ؟ بابا پھرید ، بُل لے شاہ ، گورو نانک ، واہے گورو ، شاہباج کلںدر اؤر مؤلا نے چاہا تو سرہد کے باوجُود دونوں پڑوسی مُلکاُں کے لوگ ویسے ہی آ جا سکیں گے جیسے یُوروپ میں ایک دُوسرے مُلک میں آتے جاتے ہیں یا بھارت ، بھُوٹان اؤر نیپال میں آتے جاتے ہیں ۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا ، دُنیا بدل رہی ہے ، ہم چاردیواری اؤر سرہدوں میں بںدھے ہُوہ نہیں راہ gaye ہیں ۔ یہ آسمانی رابتے کا دؤر -اَے -دؤرا ہے ۔ سॅٹॅلائیٹ ، اِںٹرنیٹ اؤر سیل فاُن کے ذمانے میں سرہدوں کے ماےنے گئے ہیں ۔ لوگ گیر کانُونی ڈھںگ سے مُلکاُں کے قانون نا توڑناےں، د ہشتگرداُں سے مُلک مہپھُوز رہے اؤر اَپنی -اَپنی سر زمین پے لوگ خوشہال رہیں ، سرہدوں کا یہی مکسد اؤر مطلب رہ گیا ہے ۔
ساُّتھ ایشِیا پُوری دُنیا میں سبسے جُدا ہے ۔ وذہ یہ کہ سکافتی تور پے یہ ایسا علاقہ ہے جہاں ایک ساتھ بسںت آتا ہے ، مانسُون آتا ہے ، سمُںدر کی لہریں اُٹھتی ہیں ۔ ہمارے یہاں تو ایک ساتھ چار موسماُں کا مزا لیا جاتا ہے اؤر چاںد دیکھ کر تاریخ اؤر تیوہار تے ہوتے ہیں ۔ ایک چاںد کو دیکھ کر ہم سب عید ، پُونم مناتے ہیں ۔ پُونم کا چاںد تو تمام مذہبوں میں اہمِیت رکھتا ہے ۔ ہمارے یہاں تو شگُن -اَپشگُن بھی ایک جیسے ہیں ۔ جیسے بِلّی کے راستا کاٹنے کی بات ہو یا مُںڈےر پر کو وا بولنے کی بات ۔ کہنے کا مطلب یہ کہ سکافتی تور پے بررے سگٰر کے اِس کھِت تے کے لوگ ایک دُوسرے سے اِس طرح وابستا ہیں کہ کوئی تاقت اِنہیں جُدا نہیں کر سکتی ۔
باوجُود اِس سچّائی کے کوئی تو وجہ ہوگی جو ہمے ایک دُوسرے کا بیری بناتی ہے ، لڈاتی ہے ، اَمن چین سے نہیں رہنے دیتی ہے ۔ یکینن اِس کی جڑیں 1947 سے پہلے کی ہیں ، لیکِن پِچھلی 6 د ہئییوں میں ہم نے اُن باتوں کو ہی تو پُکھتا کِیا ہے جو اَںگریز ہمارے بیچ اَمر بیل کی طرح بو گئے تھے ۔ اَںگریجوں نے تو آزادی سے پہلے ہی کہ دِیا تھا کہ اِن گںواراُں کو آزادی دے بھی دی تو یہ آپس میں لڑ لڑ کر ایک دُوسرے کے اِس کدر جانی دُشمن بن جائیں گے کہ ہمیں واپس آنا پڑیگا ۔ سچ بتائیے ، کیا پِچھلے 60 برسوں میں ہم نے اِسی راہ پر اَمل نہیں کِیا ؟ آج وو پھِر آ رہے ہیں ! ہمارے سِندھی شایر دوست ہریش کرم چندانی نے اَپنی ایک نج م میں کہا ہے ، “وو پھِر آ رہے ہیں ، کیا ہوا جو اِس بار اُنکا نام اِیسٹ اِںڈِیا کمپنی نہیں ہے ۔” ہم جانتے ہیں کہ ہم تاریخ کو پلٹ نہیں سکتے ، لیکِن نئی تاریخ تو لِکھ ہی سکتے ہیں ! ایسا ن ہو کہ اِس بار جو آ رہے ہیں وو پھِر ہمے سیکڑوں سال تک اَپنی گِرپھت میں لے لیں ۔ ہمے ایسے منسُوبے رکھنے والوں سے ہوشِیار رہنا ہوگا ۔ 300 برس کی ذددوذہد -اَے -آژادی میں بھی آم اَوام نے ہی بڑا کام کِیا تھا اؤر اَب بھی ووہی کر سکتی ہے ۔ ہمے اُسی اَوام پر بھروسہ ہے جو آپکے اؤر ہمارے یہاں ہر ہال میں جمہورِیت چاہتی ہے اؤر کچھ بھی نہی ۔
2007 کے پاک سفر میں میں نے محسوس کِیا تھا کہ اِنصاف کے ہک میں پاکِستانی اَوام ، وُکالا (advocates) اؤر دانِشمںد پُوری طرح جسٹِس اِ پھتےکھار چؤدھری کے ساتھ جُٹ گئے تھے ۔ آج اُسی ذددوذہد کے نتیجے میں ہم جمہورِیت کا بُلںد پرچم دیکھ رہے ہیں ۔ سلام اَوام -اَے -پاکِستان ، جو اِتنی تبِیت سے لڑتی ہے کہ 100-100 بار سجدا کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جی تو یہ بھی کرتا ہے کہ AK-47 تھامے اُن دیوانے د ہشتگرد نؤجوانوں سے جاکر دریاپھت کرُوں کہ مِیاں یہ کون سی کِتاب میں لِکھا ہے کہ مسسوموں کی جان لینے سے مذہب کا پرچم بُلںد ہوتا ہے ؟ یہ دین کی راہ نہیں ہے اؤر نا ہی تبلیگی جماتوں کی ۔ کھیر ، جسٹِس چؤدھری کے ساتھ آم اَوام اؤر وُکالا کی اِنصاف کے لیے چلی ذددوذہد کو جب میں نے پاک سرزمین پے محسوس کِیا تو ایشِیا کے بہُت بڑے اپھسانا نِگار مرہُوم کملیشور جی کی بات یاد آ گئی ۔ کملیشور کو آپ جانتے ہوںگے ، اُنہوں نے ہِند -پاک تاریخ کے ہوالے سے ایک بڑا نॉویل لِکھا ہے “کِتنے پاکِستان ”۔ وو کہتے تھے کی بھارت میں میڈِیا کو آژادی حاصل ہے اؤر پاک میڈِیا نے آژادی لڑکر حاصل کی ہے ۔ جمہورِیت کے ایک اہم پائے (Pillar) کے تور پے پاک میڈِیا ایشِیا ہی نہیں دُنیا کا ایک بیہترین میڈِیا ہے ، جِس نے ہمیشہ اُمّیدوں کے چراگ روشن رکھے ہیں اؤر ہر قسم کی جمہوری تہریک میں شُمار ہوکے جمہورِیت کا اِکبال بُلںد کِیا ہے ۔ بھارت کا میڈِیا اِس ماےنے میں پاکِستانی میڈِیا سے بہُت پیچھے ہے ۔
اِن دِنوں ہمارے چینلاُں پے عجیب قسم کی کھبروں کا بولبالا ہے ۔ بھُوت -پریت -پِشاچ اؤر جادُئی قسم کی اُول -ذلول کھبریں چینلاُں پے چلتی رہتی ہیں ۔ جُرم کی کھبریں بڑے کھؤپھناک اَںداز میں پیش کی جاتی ہیں اؤر آم اَوام کے مُدّے گدھے کے سیںگوں کی طرح غائب ہوتے جا رہے ہیں ۔ ہمارے یہاں تو آم چرچا ہے کے 3 “C” والی کھبروں کو ہی توج جوہ دی جاتی ہے ۔ یہ 3 “C” آپ بھی جان لیجِیے ، کرِکیٹ ، کرااِم اؤر سِنیما ۔ آپکو یہ شرمناک خبر مِل ہی چُکی ہے کہ ہم نے کرِکیٹ کے جُونُون میں ہاکی کو اِس کدر گرت میں پہُںچا دِیا ہے کہ اَب ہم پہلی بار اولںپِک میں ہاکی سے باہر ہو گئے ہیں ۔ اؤر کرائیم یانے جُرم کا عالم یہ ہے کہ ہر دِن لاٹری کے ٹِکٹ کی طرح لگتا ہے ۔ بھلے چںگے گھر آ گئے تو مان لیتے ہیں کہ لاٹری لگ گئی ۔ کبھی اِ ںتژار حُسین کا نॉویل “آگے سمُندر ہے ” پڑھ کے کراچی میں آئے دِن ہونے والے ہاد سوں سے دِل خوف ذدا ہو گیا تھا ، لیکِن آج یُوں لگتا ہے جیسے دُنیا میں جُرم کرنے والوں کی ہی تاداد میں اِ جاپھا ہو رہا ہے اؤر باقی بھلے مانس دھیرے دھیرے کم ہوتے جا رہے ہیں ۔
کیا آپکو نہیں لگتا کہ جب تمام قسم کے گُںڈے -موالی اؤر بے -اِ مان لوگوں میں ایکا ہو سکتا ہے تو صاف -دِل سیدھے سادے لوگ کیوں نہیں ایک ہو سکتے ؟ ایک گُںڈا بھرے بازار میں پِس ٹل سے کِسی کا قتل کر دیتا ہے اؤر ہزاروں تماشبین کھڑے رہ جاتے ہیں ۔ بھارت ، پاکِستان ، تِبّت ، نیپال، برما (میاںمار )، شری لںکا ، اَفغانِستان ، مالدیو اؤر بھُوٹان کہیں بھی چین نہیں ہے ۔ ایک پُرانا فلمی گیت یاد آتا ہے “ہر طرف اَب یہہی اَفسانے ہیں ”۔ لیکِن جُرم اؤر د ہشتگردی کے سؤداگراُں کو ہم پہچان ہی نہیں پا رہے ۔ ایشِیا میں جو عالم ہے وو ہم نے نہیں پیدا کِیا ، بل کی اِسے پیدا کرنے والے کِسی دُوسرے مہادیپ (Continent) میں بیٹھے ہتھِیاراُں کی تِجارت کر رہے ہیں ۔ ہمارے یہاں جو جمہوری حکمتیں ہیں اُنہیں اُن سؤداگراُں سے خبردار کرنا ہوگا ۔ یہ کام اَوام اؤر دانِشمںدوں کا ہے ۔ اَںگریجوں کے ژُل م کا بدلا لینے کے لیے مدن لال ڈیںگرا لںدن پہُںچ گیا تھا ۔ ہمے کہیں نہی جانا ہے ، بس اَپنی جمہوری تاقت کو کھالِس جمہورِیت میں تبدیل کرنا ہے ، تاکہ کوئی ہمارے اُوپر ہاتھ نہیں اُٹھا سکے ۔ ہم اَپنا فیصلہ خُد کریںگے اؤر پار لیامین ٹ سے پںچایت تک ہر جگہ اِسی جمہوری ذج بے کو کائم کریںگے ۔ ہمارے بُجُرگ شایر گوپال داس نیرج نے ایسے ہی حالات پے کہا ہے ،
آگ بہتی ہے یہاں گںگا میں بھی جھیلم میں بھی
کوئی بتلائے کہاں جاکر نہاےا جائے
لیکِن اُمّید کبھی خت م نہیں ہوتی ، نیرج نے لِکھا ہے ،
لے مشالیں چل پڑے ہیں لوگ میرے گاںو کے
اَب اَںدھیرا جیت لیںگے لوگ میرے گاںو کے ۔
کھُدا کھیر کرے ، پھِر مِلیں گے ۔
गुरुवार, 22 मई 2008
آلوک شریواستو کی غزل
گھر کی بُنِیادےں ،دیواریں، باماُ در تھے بابُوجی سب کو بںدھے رکھنے والا ،خاص ہُنر تھے بابُوجی
اَب تو اُس سُونے ماتھے پر کورےپن کی چادر ہے اَمّاجی کی ساڑی سج دھج سب جیور تھے بابُوجی
تین مُہلّوں میں اُن جیسی قد کاٹھی کا کوئی ن تھااَچّھے خاصے اُوںچے پُورے قد داور تھے بابُوجی
بھیتر سے کھالِس ججباتی اؤر اُوپر سے ٹھےٹھ پِتا الگ ،اَنُوٹھا اَن بُوجھا سا اِک تیور تھے بابُوجی
کبھی بڑا سا ہاتھ کھرچ تھے کبھی ہتھیلی کی سُوجن میرے من کا آدھا ساہس،آدھا در تھے بابُوجی
اَب تو اُس سُونے ماتھے پر کورےپن کی چادر ہے اَمّاجی کی ساڑی سج دھج سب جیور تھے بابُوجی
تین مُہلّوں میں اُن جیسی قد کاٹھی کا کوئی ن تھااَچّھے خاصے اُوںچے پُورے قد داور تھے بابُوجی
بھیتر سے کھالِس ججباتی اؤر اُوپر سے ٹھےٹھ پِتا الگ ،اَنُوٹھا اَن بُوجھا سا اِک تیور تھے بابُوجی
کبھی بڑا سا ہاتھ کھرچ تھے کبھی ہتھیلی کی سُوجن میرے من کا آدھا ساہس،آدھا در تھے بابُوجی
सदस्यता लें
संदेश (Atom)