मंगलवार, 15 जुलाई 2008

پریم چںد گاںدھی کی قلم سے2




گذشتہ ہفتے ہم نے نادر شاہ کے حوالے سے تاریخ اور ادب کی بات کی تھی۔ ایک بار پھر اسی راہ پہ چلتے ہوئے دو ایسی کتابوں کا ذکر کریں گے جو حال ہی میں ہندی میں شائع ہوئی ہیں اور ادب کی دنیا میں خاصی چرچامیں ہیں۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ دونوں ہی کتابیں ہماری مشترکہ تاریخ کی سب سے خوبصورت عمارت یعنی تاج محل کو مرکز بنا کر لکھی گئی ہیں۔ پہلی کتاب ہے ”تاج محل۔ بے قراری کا بیاں“ اور اسے لکھا ہے ہندوستان کے جانے مانے کالم نگار اور فلم نقاد جئے پرکاش چوکسی نے۔ وہ گذشتہ 24برس سے ہندی کے ایک بڑے اخبار ”دینک بھاسکر“ میں روزانہ فلموں پر ”پردے کے پیچھے“ کالم لکھ رہے ہیں اور ان کا یہ کالم اس قدر لوگوں میں مقبول ہے کہ بہت سے قاری صرف ان کا کالم پڑھنے کے لئے ہی اخبار پڑھتے ہیں۔ سینما کے ساتھ ساتھ چوکسی سماجی مسائل کو شامل کرتے ہوئے دلچسپی جگانے والا کالم لکھتے ہیں۔
”تاج محل۔ بے قراری کا بیاں“ ایک ناول کی شکل میں ہے لیکن سیاست میں اسے ایک فلم کے سکرپٹ کے طور پہ لکھا گیا تھا۔ یہ تاج محل کی تعمیر کی جنونی کہانی ہے کہ کس طرح ایک خوابیدہ عمارت تیار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ایسی فلم بنانے کے لئے جو بجٹ چاہیے وہ کوئی بھی جتانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ وجہ یہ بھی ہے کہ اس فلم کو بنانے کا بجٹ اگرچہ ایک بار جتا بھی لیا جائے تو بھی فلم دکھانے سے اتنا پیسہ نہیں کمایا جا سکتا ہے کہ آپ مول بھی وصول کر سکیں۔ اس فلم کے سکرپٹ کم ناول کو لکھے ہوئے 30برس ہو گئے ہیں اور شاہ رخ خان تک کہہ چکے ہیں کہ اس فلم کو فی الحال بنانا ممکن نہیں، کچھ برس بعد شاید بنایا جا سکے۔ گوویند نہلانی جیسے ڈائریکٹر اور ندا فضلی سریخے قلم کار اس پر کام کرنے کے لئے راضی ہیں لیکن خدا جانے فلم کب بنے گی۔بہرحال فلم کا سکرپٹ اب ایک ناول کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ یہ ایک قسم کا تجربہ ہے جس میں تاریخ افسانے کی شکل لے لیتی ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ تاج محل کو کن حالات میں اور کیسے بنایا گیا ہوگا اور کیا کیا حادثے پیش آئے ہوں گے لیکن ہم سب اتنا ضرور سنتے آئے ہیں کہ تاج محل کی تعمیر میں لگے کاری گروں کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے تھے۔ ”تاج محل۔ بے قراری کا بیاں“ پڑھنے کے بعد یہ احساس پختہ ہوتا ہے کہ تاج محل جیسی نایاب عمارت جنون کے بنا نہیں بنائی جا سکتی تھی۔ یوں تاج محل کو لے کر بہت سی کتابیں ہندی، اردو، انگریزی میں موجود ہیں لیکن تاریخ میں اور ادب میں جو فرق ہوتا ہے اس کے چلتے ہم تاریخ سے منہ چراتے ہیں اور ادب کو گلے لگاتے ہیں۔ میری یادداشت میں تاج محل کی تعمیر پر اس سے پہلے ایک اور ناول ہندی میں شائع ہوا تھاجس کا عنوان یاد نہیں آرہا، لیکن وہ ہمارے مشہور اور مقبول عوام قلم کار اوم پرکاش شرما نے لکھا تھا، جو کسی پاکٹ بک پبلشر نے چھاپا تھا۔ میں اس ناول کو برسوں سے تلاش کر رہا ہوں لیکن وہ نہیں مل رہا۔ خیر، جئے پرکاش چوکسی کا کام خاصی محنت اور دماغی جدوجہد کے بعد پورا ہوا ہوگا۔ یہ افسانہ 16برس کے شاہجہان یعنی شہزادے خرم اور 15برس کی ارجمند بانو کی مینہ بازار میں ہوئی پہلی ملاقات سے شروع ہوتا ہے اور عشق کی انتہا پہ جا کر ختم ہوتا ہے۔ جس میں سرزمین ہندوستان ہی نہیں دنیا کی سب سے حسین عمارت کے تعمیر ہونے کا ایسا خوبصورت اور دلچسپ آنکھوں دیکھا حال سامنے آتا ہے کہ آپ بار بار واہ واہ کہے بنا نہیں رہیں گے۔
تاج محل کی تعمیر کے لئے شاہجہان نے پوری دنیا سے فنکار بلائے تھے اور سبھی نے شاندار نقش پیش کیے تھے لیکن ایک اجنبی فنکار نے ان پردیسی فنکاروں سے پوچھا کہ وہ سات سمندر پار کر کے کالی مرچ اور مصالحے خریدنے کیوں اس سرزمین پہ آتے ہیں۔ جواب میں یہی سننے کو ملا کہ ان کی آب وہوا میں یہ نہیں ہو سکتا۔ اجنبی فنکار کہتا ہے، جس طرح پردیسی آب وہوا میں کالی مرچ کا پودا نہیں لگ سکتا اسی طرح ہندوستان کی زمین پہ پردیسی انداز کی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی۔ ہر عمارت کا ایک ایمان ہوتا ہے، ایک چہرہ ہوتا ہے، ایک روح ہوتی ہے، ایک دھڑکن ہوتی ہے۔ اس کی اپنی زندگی ہوتی ہے۔ یہ اجنبی ہی تاج کو شکل دینے والا کاریگر تھا، عیسیٰ آفندی۔ وہ سچ مچ عجیب شخص تھا جو جمنا کے کنارے زمین کو سونگھ سونگھ کے، کان لگا کر زمین کی کوئی آواز سننے کی کوشش کرتا تھا اور زمین سے پوچھتا تھا ”بتا تیرے بھیترار کس عمارت کی شکل بسی ہوئی ہے؟“ ایسا دیوانہ ہی شاید تاج محل بنا سکتا تھا۔ اس نے جب شاہجہان کو کہا کہ مکران سے سفید سنگ مرمر لایا جائے تو بادشاہ کو تعجب ہوا کہ اتنی دور سے پتھر کیسے لایا جائے؟ عیسیٰ کہتا ہے مکران کے سنگ مرمر صدیوں سے تاج کے روپ میں ڈھلے جانے کے لئے بے قرار تھے۔ پتھر خود چل کر آنا چاہتے ہیں۔ ہمیں تو صرف راستہ بتانا ہے۔ اس طرح ایک عظیم شان عمارت کی تعمیر شروع ہوتی ہے اور آج کی دنیا کے سب سے شاندار عجوبہ کی شکل سامنے آتی ہے۔
لیکن اس تعمیر میں صرف محبت میں غافل بادشاہ اور جنونی کاریگر عیسیٰ آفندی ہی نہیں ہزاروں مزدوروں کا ہنر بھی شامل تھا۔ پتہ نہیں دنیا اور ہندوستان کے کس کس کونے سے یہ ہنر مند کاریگر جتائے گئے تھے جنہوں نے 20برس میں باکمال عمارت تعمیر کی تھی۔ اتنا ہی نہیں اس تعمیر کے پیچھے شاہی خزانے کو لے کر اورنگزیب اور شاہجہان کے بیچ کتنی تقریریں ہوئیں ہوں گی، یہ سب بھی تاریخ کے بے حد دلچسپ باب ہیں، جنہیں پڑھنا اور خیالوں میں اتارنا بھی ایک نئی روشنی دیتا ہے۔ قلم کار جئے پرکاش چوکسی نے اپنے خیالوں سے عیسیٰ کا جو کردار گھڑا ہے وہ بے مثال ہے اور بے مثال ہے جہاں آراءاور عیسیٰ کے بیچ محبت کے پھول کھلنے کا خیال۔ ایک بے حد خوبصورت نظارہ ہے کہ جب تاج کی شکل کو لے کر عیسیٰ ایک ڈرامہ پھر سے زندہ کرنا چاہتا ہے۔ ممتاز کی آخری رات کو وہ برہان پور میں دیکھنا چاہتا ہے۔ جہاں آراءممتاز کی شکل میں بستر پہ لیٹ جاتی ہے، اس کے آس پاس بادشاہ، اورنگزیب اور عیسیٰ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بادشاہ ممتاز سے پوچھتے ہیں، ’بیگم تاج کی شکل کیا ہوگی؟‘ بیگم کوئی جواب نہیں دے پاتیںمحض سرہانے رکھی اور قرآن شریف اور دین الہٰی سریخے کتابوں کی طرف ایک نظر ڈال کر خاموش ہو جاتی ہیں۔ عیسیٰ کو تاج کی ایک شکل مل جاتی ہے اور وہ ایک ایسی عمارت کا تصور کرنے لگ جاتا ہے جو ذات اور مذہب سے پرے انسانی محبت کا خیال روشن کرے۔ مجھے نہیں پتہ اردو ادب میں اس قسم کی کوئی کتاب ہے کہ نہیں لیکن میری گزارش ہے کہ اگر اس کتاب کا ترجمہ اردو میں ہو تو بھارت اور پاکستان کے پڑھنے والوں کے لئے یہ ایک شاندار تحفہ ہوگا۔
تحفہ تو ہمارے اسماعیل چونارہ نے بھی دیا ہے اور وہ بھی تاج محل اور شاہجہان کے آخری دنوں کے ایک ڈرامے کی شکل میں۔ ایک بار جئے پور میں ان سے مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ لندن سے بھارت گھومنے آئے تھے۔ اخبار میں ایک خبر پڑھ کر انجمن ترقی پسند مصنفین کے ایک پروگرام میں شرکت کرنے چلے آئے تھے۔ ہمارے ساتھ انہوں نے لنچ لیا اور اس کے بعد ای میل پہ ان سے رابطہ ہوتا رہا۔ اسماعیل چونارہ کی پیدائش جنوبی افریقہ کی ہے، یوں وہ خاص ہندوستانی ہیں اور کئی برسوں سے لندن میں رہتے ہیںاور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ وہ ایک مقبول ڈرامہ نگار ہی نہیں ایک خوبصورت مصور بھی ہیں۔ ’لیلیٰ مجنوں‘ کے علاوہ گجرات میں ہوئے قتل عام پہ ان کا ڈرامہ ’اب یہ فضا خاموش ہے‘ خاصی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ ان دنوں وہ مرزا غالب پہ ایک ڈرامہ لکھ رہے ہیں۔ لیکن جس ڈرامے کا یہاں ذکر کرنا ہے وہ ہے’یادوں کے بجھے ہوئے سویرے‘ ۔ یہ ڈرامہ انگریزی میں لکھا گیا تھا۔’A River Across The Unsceen Divide‘۔ صا بر ارشادعثمانی نے اس ڈرامے کا اردو میں ترجمہ کیا اور یہ بھی ہندی رسم الخط یعنی ناگری میں چھپا ہے۔ پچھلے 3برس سے اس کے مسلسل شو ہوتے رہے ہیں اور لوگوں نے اسے بے حد پسندکیا ہے۔ اس میں کل جمع چار کردار ہیں، شاہجہان، جہاں آرائ، دارا شکوہ اور بادشاہ کا نوکر محمود۔ اورنگزیب کی موجودگی ڈرامے میں پردے کے پیچھے ہی رہتی ہے یعنی صرف اس کا ذکر ہوتا ہے۔ تاج محل کی تعمیر کے بعد شاہجہان اورنگزیب کی قید میں جیسے تیسے اپنا وقت گزار رہے ہیںاور کئی بار بادشاہ پہ دیوانگی کے دورے پڑتے ہیں تو وہ گذشتہ وقت میں جا کر اپنے خیالوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ شاہجہان کو اس قید میں کتنی تکلیف ہوئی ہوگی اس کا ایک منظر آپ دیکھئے، جب وہ اپنی بیٹی سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ’دیکھو اس عظیم ترین مقبرہ کو کتنے ہزار مزدوروں نے محنت اور مشقت کر کے اس کو تعمیر کیا۔ اسی زمانے میں گجرات میں قہر پھیلا ہوا تھا جس میں لاکھوں انسان قہرکی نظر ہوگئے تھے اور میں اس وقت اس تاج محل کی تعمیر میں کتنا منہمک تھا کہ ان باتوں پہ دھیان ہی نہیں دے پایا، لیکن اب میں تمہاری ماں کی برسی کے عرس کے موقع پر ان کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے کے لئے وہاں جا کر فاتحہ تک نہیں پڑھ سکتا‘۔
دارشکوہ سے آپ سب واقف ہیں ہی، شاہجہان کا سب سے پیارا بیٹا یا کہیں کہ اکبر مہان کی وراثت کا سچا وارث، جس نے ناجانے کتنے مذہبوں کی کتابیں پڑھیں اور آخر کار اورنگزیب نے اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے دہلی کے گلی کوچوں میں پھینکوا دئیے۔ وہی دارشکوہ ایک بار شاہجہان کے خیالوں میں داخل ہوتا ہے۔ تاج محل کے بارے میں دارشکوہ جو کہتا ہے وہ ہمارے حالات حاضرہ پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔ دارشکوہ کہتا ہے، ’ابا حضور آپ کیا دیکھتے ہیں؟ یہی نہ جو فاصلے پر تاج محل کی ایک نشانی ہے، محبت کا ایک تحفہ ہے اگر اس پر لکھا جائے تو کتابوں کے ڈھیر لگ جائیں!آپ کو اس کا احساس ہے کہ آپ نے کس چیز کی بنیاد ڈالی ہے اور کیوں اور کس پوشیدہ حقیقت نے آپ کو مجبور کیا؟ اس دنیا کی حدوں سے پرے غائب سے آپ کو الہام ہوا جس کی وجہ سے ہزاروں دعائیں پڑھی جاتی ہیں، ہزاروں حمدوں کا نغمہ گونجتا رہتا ہے اور خدا کے نام کا ورد بے شمار رہتا ہے۔ آپ اور ہزاروں آپ جیسے اپنی دعائیں التجائیں کرتے رہتے ہیں، چاہے اسے رام، ایشور، اللہ کا نام دیں۔ انہی ناموں کی تسبیح پڑھی جاتی ہے، دھیرے دھیرے بلند آواز سے اور اسی کے نام کا ورد کرتے ہوئے مقبرے کے چاروں طرف چکر لگاتے رہتے ہیں‘۔
آج جب ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ کابل میں ان لوگوں کو فدائین حملے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا جو سرحد پارکر کے محبت کے پھول کھلانے کی تمنا لیے ویزہ لینے آئے تھے یا شہر کراچی میں معصوم لوگوں کو بددماغ ہلاک کر دیتے ہیںتو تاج محل کے سامنے خونی لوگ آخر کب تک جیتے رہیں گے۔ جب خدا کے ایک ہونے کا فیصلہ ہو ہی چکا ہے تو پھر یہ قتل وخون کس کے نام پر ہو رہے ہیں۔ تاریخ ہمیں کبھی کبھار اس طرح بھی سبق دیتی ہے۔ کیا تاج محل کا تصور کرتے ہوئے ہم محبت کا پیغام نہیں پہنچا سکتے؟ جیسا کہ جئے پرکاش چوکسی اپنی کتاب کے پہلے صفحے پہ لکھتے ہیں۔
میں تاج ہوں،
میں انسانی حوصلوں اور ارادوں کی بلندگی کا پرچم ہوں،
میں تواریخ کے ورقوں میں
انسانی محبت کی یاد کا ایک کھلا ہوا گلاب ہوں

http://humshehri.com/DetailStory.aspx?ID=250

कोई टिप्पणी नहीं: