मंगलवार, 26 अगस्त 2008

اَب کے ہم بِچھڑے تو....

احمد فراز نہیں رہے .....

یکینن ایک بڑا شایر ..ہِندوستان کا یا کہ پقِستان کا....نہیں پُورے بررے سگیر کا ...نہیں ...اَدب کی دُنیا کا ایک بڑا شایر॥
بتور اکیدت کچھ شیر اُنکے گُن گُنا لیں ...


اَب کے ہم بِچھڑے تو شاید کبھی خواباُں میں مِلے
جیسے طرح سُوکھے ہوئے پھُول کِتابوں میں مِلے
دُوںڈھ اوجڑے ہُ اے لوگوں میں وفا کے موتی
یے خذانے تُجھے مُمکِن ہے خرابوں میں مِلیں

تُو خُدا ہے ن میرا عشق فرِش توں جیسا
دونوں اِ ںساں ہیں تو کیوں اِتنے ھِجابوں میں مِلیں۔

یا کہ ایک دُوسری غزل کے کچھ شیر --

اَب اؤر کیا کِسی سے مراسِم بڑھائے ہم
یہ بھی بہُت ہے تُجھ کو اَگر بھول جائیں ہم
سہرا اَے زندگی میں کوئی دوسرا ن تھا
سُنتے رہے ہیں آپ ہی اَپنی سدایّں ہم
اِس زندگی میں اِتنی پھراگت کِسے نصیب
اِتنا ن یاد تھا کہ تُجھے بھول جائیں ہم
تُو اِتنے دِل جُدا تو ن تھی اَے شبے پھِراک
آ تیرے راستے میں سِتارے لُٹااےں ہم
وو لوگ اَب کہاں ہیں جو کل کہتے تھے فراز
ہے ہے کھُدا ن کر دا تُجھے بھی رُلااےں ہم

कोई टिप्पणी नहीं: