सोमवार, 26 मई 2008

پریم چںد گاںدھی کی قلم سے


سال 2008 برر اَے -سگٰر میں نئی رؤشنی کا آفتاب لیکر آیا ہے ۔ بھارت کے دانِشمںدوں اؤر اَمن پسںداُں کو بیگم بےنجیر کی شہادت سے جو صدمہ لگا تھا ، وہ پاکِستان میں اَوام کی جمہورِیت کے لیے مُسلسل ذددوذہد کے بعد جیت کے جشن کی شکل میں آیا تو سب کی جیسے برسوں کی مُراد پُوری ہو گئی ۔ دونوں بِرادر مُلکاُں میں آم اَوام یہی تو چاہتی ہے کہ تالُّکات سُدھرےں، اَمن کائم رہے اؤر ترقی کی راہ پر چلیں ۔ پِچھلے برس نیپال میں راج شاہی کے کھات مے کے بعد سے بھارت میں یہ آم چرچا کا مجمُون تھا کہ اَب دیکھنا یہ ہے کہ پاکِستان میں کب جمہورِیت کا سُورج اَپنی سُنہلی کِرنیں بِکھیرتا ہے ؟
پُورے بررے سگٰر میں بسںت کے ساتھ جمہورِیت کی پُر سُکُون ہوا چل پڑی ہے ۔ بھُوٹان میں لوکراج کائم ہو چُکا ہے ۔ تِبّت میں ذددوذہد چل رہی ہے اؤر میاںمار (برما) میں سںیُکت راشٹر سںگھ کے سیکریٹری کے ہالیا دؤرے کے بعد اُمّید بںدھی ہے کہ وہاں بھی جلد ہی اِ لیک شن ہوںگے ، جِس مے تمام سِیاسی پارٹِیاں شِرقت کریںگی اؤر یہ بھی کہ 17 برس سے क़ےد میں بںد کھاتُون اَںگ ساں سُ کی کو بھی رِہائی مِلیگی ۔

آپ خُد ہی دیکھ سکتے ہیں کہ ایشِیا کے اِس کھِت تے میں کِس کدر لوگ خُد اَپنا مُستاک بِل سںوارنے کے لیے آگے آ رہے ہیں ۔ وہ تمام تاکتےں دھیرے دھیرے ہی سہی اَوام کی کھواہِشاُں کے آگے جھُک رہی ہیں جو جمہورِیت کو بِلکُل پسںد نہی کرتی ، फ़ِر وہ چاہے راجشاہی ہو یا فوج ۔ در-اصل اِسکے پیچھے لوگوں کی مُسلسل ذددوذہد ہی نہیں دُنیا بھر کے بدلتے حالت بھی ایک وجہ ہیں ۔ اِنپھورمےشن ٹیک نولاجی کی وجہ سے پُوری دُنیا گلوبل وِل لےج ہو گئی ہے ۔ اَوام کو اِس سے مہرُوم نہیں رکھا جا سکتا اؤر اِسی لِئے دُنیا بھر کے لوگ ایک دُوسرے سے اَپنے دُःکھ درد ہی ساجھا نہیں کرتے بلکہ ترقی کیسے ہو ، اِسکو لیکر بھی اَپنے کھیالات ساجھا کرتے ہیں ۔ ژاھِر ہے لوگوں کا یہ رابتا آخرکار اِںسان کے ساتھ -ساتھ مُلک اؤر دُنیا کی ترقی کی کھواہِشاُں کو بھی مجبُوتی دیتا ہے ۔

پاکِستان کے بارے میں آپ لوگ بیہتر جانتے ہیں لیکِن میں یہاں اِس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہُوں کہ بھارت میں ہر اُس خبر کو لوگ گؤر سے پڑھتے اؤر دیکھتے ہیں جِس سے پاکِستانی اَوام کا مُستاک بِل جُڑا ہوتا ہے ۔ میں دو دپھا پاک سر زمین کا دؤرا کر چُکا ہُوں اِسلِئے میرے دوست اہباب ایسی کھبروں پے میری رائے جانّا چاہتے ہیں ۔ یقین مانِیہ ، کراچی ، مُلتان ، لاہور ، پیشاور ، اِسلاماباد یانے پاکِستان میں کہیں بھی کوئی د ہشتگردی کی کوئی واردات ہوتی ہے تو ہِندوستانی اَوام کو گہرا صدمہ لگتا ہے ۔ لوگ مُجھ سے دریاپھت کرتے ہیں ، “ کیوں پریم جی یہ سِلسِلہ کب خت م ہوگا ؟” میں جواب میں یہہی کہتا رہا ہُوں کہ جمہورِیت آ جانے دیجِیے سب ٹھیک ہو جائیگا ۔ اؤر آج پاکِستان میں جمہورِیت کا جو جشن منایا جا رہا ہے اُس میں آپ ہِندوستانی اَو وام کو بھی شامِل مانِیہ ۔ اَب لوگ مُجھ سے کہتے ہیں کے اَب تو آپکا پاکِستان آنا جانا اؤر بڑھ جائیگا ! کیا جواب دُوں ؟ بابا پھرید ، بُل لے شاہ ، گورو نانک ، واہے گورو ، شاہباج کلںدر اؤر مؤلا نے چاہا تو سرہد کے باوجُود دونوں پڑوسی مُلکاُں کے لوگ ویسے ہی آ جا سکیں گے جیسے یُوروپ میں ایک دُوسرے مُلک میں آتے جاتے ہیں یا بھارت ، بھُوٹان اؤر نیپال میں آتے جاتے ہیں ۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا ، دُنیا بدل رہی ہے ، ہم چاردیواری اؤر سرہدوں میں بںدھے ہُوہ نہیں راہ gaye ہیں ۔ یہ آسمانی رابتے کا دؤر -اَے -دؤرا ہے ۔ سॅٹॅلائیٹ ، اِںٹرنیٹ اؤر سیل فاُن کے ذمانے میں سرہدوں کے ماےنے گئے ہیں ۔ لوگ گیر کانُونی ڈھںگ سے مُلکاُں کے قانون نا توڑناےں، د ہشتگرداُں سے مُلک مہپھُوز رہے اؤر اَپنی -اَپنی سر زمین پے لوگ خوشہال رہیں ، سرہدوں کا یہی مکسد اؤر مطلب رہ گیا ہے ۔

ساُّتھ ایشِیا پُوری دُنیا میں سبسے جُدا ہے ۔ وذہ یہ کہ سکافتی تور پے یہ ایسا علاقہ ہے جہاں ایک ساتھ بسںت آتا ہے ، مانسُون آتا ہے ، سمُںدر کی لہریں اُٹھتی ہیں ۔ ہمارے یہاں تو ایک ساتھ چار موسماُں کا مزا لیا جاتا ہے اؤر چاںد دیکھ کر تاریخ اؤر تیوہار تے ہوتے ہیں ۔ ایک چاںد کو دیکھ کر ہم سب عید ، پُونم مناتے ہیں ۔ پُونم کا چاںد تو تمام مذہبوں میں اہمِیت رکھتا ہے ۔ ہمارے یہاں تو شگُن -اَپشگُن بھی ایک جیسے ہیں ۔ جیسے بِلّی کے راستا کاٹنے کی بات ہو یا مُںڈےر پر کو وا بولنے کی بات ۔ کہنے کا مطلب یہ کہ سکافتی تور پے بررے سگٰر کے اِس کھِت تے کے لوگ ایک دُوسرے سے اِس طرح وابستا ہیں کہ کوئی تاقت اِنہیں جُدا نہیں کر سکتی ۔

باوجُود اِس سچّائی کے کوئی تو وجہ ہوگی جو ہمے ایک دُوسرے کا بیری بناتی ہے ، لڈاتی ہے ، اَمن چین سے نہیں رہنے دیتی ہے ۔ یکینن اِس کی جڑیں 1947 سے پہلے کی ہیں ، لیکِن پِچھلی 6 د ہئییوں میں ہم نے اُن باتوں کو ہی تو پُکھتا کِیا ہے جو اَںگریز ہمارے بیچ اَمر بیل کی طرح بو گئے تھے ۔ اَںگریجوں نے تو آزادی سے پہلے ہی کہ دِیا تھا کہ اِن گںواراُں کو آزادی دے بھی دی تو یہ آپس میں لڑ لڑ کر ایک دُوسرے کے اِس کدر جانی دُشمن بن جائیں گے کہ ہمیں واپس آنا پڑیگا ۔ سچ بتائیے ، کیا پِچھلے 60 برسوں میں ہم نے اِسی راہ پر اَمل نہیں کِیا ؟ آج وو پھِر آ رہے ہیں ! ہمارے سِندھی شایر دوست ہریش کرم چندانی نے اَپنی ایک نج م میں کہا ہے ، “وو پھِر آ رہے ہیں ، کیا ہوا جو اِس بار اُنکا نام اِیسٹ اِںڈِیا کمپنی نہیں ہے ۔” ہم جانتے ہیں کہ ہم تاریخ کو پلٹ نہیں سکتے ، لیکِن نئی تاریخ تو لِکھ ہی سکتے ہیں ! ایسا ن ہو کہ اِس بار جو آ رہے ہیں وو پھِر ہمے سیکڑوں سال تک اَپنی گِرپھت میں لے لیں ۔ ہمے ایسے منسُوبے رکھنے والوں سے ہوشِیار رہنا ہوگا ۔ 300 برس کی ذددوذہد -اَے -آژادی میں بھی آم اَوام نے ہی بڑا کام کِیا تھا اؤر اَب بھی ووہی کر سکتی ہے ۔ ہمے اُسی اَوام پر بھروسہ ہے جو آپکے اؤر ہمارے یہاں ہر ہال میں جمہورِیت چاہتی ہے اؤر کچھ بھی نہی ۔
2007 کے پاک سفر میں میں نے محسوس کِیا تھا کہ اِنصاف کے ہک میں پاکِستانی اَوام ، وُکالا (advocates) اؤر دانِشمںد پُوری طرح جسٹِس اِ پھتےکھار چؤدھری کے ساتھ جُٹ گئے تھے ۔ آج اُسی ذددوذہد کے نتیجے میں ہم جمہورِیت کا بُلںد پرچم دیکھ رہے ہیں ۔ سلام اَوام -اَے -پاکِستان ، جو اِتنی تبِیت سے لڑتی ہے کہ 100-100 بار سجدا کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جی تو یہ بھی کرتا ہے کہ AK-47 تھامے اُن دیوانے د ہشتگرد نؤجوانوں سے جاکر دریاپھت کرُوں کہ مِیاں یہ کون سی کِتاب میں لِکھا ہے کہ مسسوموں کی جان لینے سے مذہب کا پرچم بُلںد ہوتا ہے ؟ یہ دین کی راہ نہیں ہے اؤر نا ہی تبلیگی جماتوں کی ۔ کھیر ، جسٹِس چؤدھری کے ساتھ آم اَوام اؤر وُکالا کی اِنصاف کے لیے چلی ذددوذہد کو جب میں نے پاک سرزمین پے محسوس کِیا تو ایشِیا کے بہُت بڑے اپھسانا نِگار مرہُوم کملیشور جی کی بات یاد آ گئی ۔ کملیشور کو آپ جانتے ہوںگے ، اُنہوں نے ہِند -پاک تاریخ کے ہوالے سے ایک بڑا نॉویل لِکھا ہے “کِتنے پاکِستان ”۔ وو کہتے تھے کی بھارت میں میڈِیا کو آژادی حاصل ہے اؤر پاک میڈِیا نے آژادی لڑکر حاصل کی ہے ۔ جمہورِیت کے ایک اہم پائے (Pillar) کے تور پے پاک میڈِیا ایشِیا ہی نہیں دُنیا کا ایک بیہترین میڈِیا ہے ، جِس نے ہمیشہ اُمّیدوں کے چراگ روشن رکھے ہیں اؤر ہر قسم کی جمہوری تہریک میں شُمار ہوکے جمہورِیت کا اِکبال بُلںد کِیا ہے ۔ بھارت کا میڈِیا اِس ماےنے میں پاکِستانی میڈِیا سے بہُت پیچھے ہے ۔

اِن دِنوں ہمارے چینلاُں پے عجیب قسم کی کھبروں کا بولبالا ہے ۔ بھُوت -پریت -پِشاچ اؤر جادُئی قسم کی اُول -ذلول کھبریں چینلاُں پے چلتی رہتی ہیں ۔ جُرم کی کھبریں بڑے کھؤپھناک اَںداز میں پیش کی جاتی ہیں اؤر آم اَوام کے مُدّے گدھے کے سیںگوں کی طرح غائب ہوتے جا رہے ہیں ۔ ہمارے یہاں تو آم چرچا ہے کے 3 “C” والی کھبروں کو ہی توج جوہ دی جاتی ہے ۔ یہ 3 “C” آپ بھی جان لیجِیے ، کرِکیٹ ، کرااِم اؤر سِنیما ۔ آپکو یہ شرمناک خبر مِل ہی چُکی ہے کہ ہم نے کرِکیٹ کے جُونُون میں ہاکی کو اِس کدر گرت میں پہُںچا دِیا ہے کہ اَب ہم پہلی بار اولںپِک میں ہاکی سے باہر ہو گئے ہیں ۔ اؤر کرائیم یانے جُرم کا عالم یہ ہے کہ ہر دِن لاٹری کے ٹِکٹ کی طرح لگتا ہے ۔ بھلے چںگے گھر آ گئے تو مان لیتے ہیں کہ لاٹری لگ گئی ۔ کبھی اِ ںتژار حُسین کا نॉویل “آگے سمُندر ہے ” پڑھ کے کراچی میں آئے دِن ہونے والے ہاد سوں سے دِل خوف ذدا ہو گیا تھا ، لیکِن آج یُوں لگتا ہے جیسے دُنیا میں جُرم کرنے والوں کی ہی تاداد میں اِ جاپھا ہو رہا ہے اؤر باقی بھلے مانس دھیرے دھیرے کم ہوتے جا رہے ہیں ۔
کیا آپکو نہیں لگتا کہ جب تمام قسم کے گُںڈے -موالی اؤر بے -اِ مان لوگوں میں ایکا ہو سکتا ہے تو صاف -دِل سیدھے سادے لوگ کیوں نہیں ایک ہو سکتے ؟ ایک گُںڈا بھرے بازار میں پِس ٹل سے کِسی کا قتل کر دیتا ہے اؤر ہزاروں تماشبین کھڑے رہ جاتے ہیں ۔ بھارت ، پاکِستان ، تِبّت ، نیپال، برما (میاںمار )، شری لںکا ، اَفغانِستان ، مالدیو اؤر بھُوٹان کہیں بھی چین نہیں ہے ۔ ایک پُرانا فلمی گیت یاد آتا ہے “ہر طرف اَب یہہی اَفسانے ہیں ”۔ لیکِن جُرم اؤر د ہشتگردی کے سؤداگراُں کو ہم پہچان ہی نہیں پا رہے ۔ ایشِیا میں جو عالم ہے وو ہم نے نہیں پیدا کِیا ، بل کی اِسے پیدا کرنے والے کِسی دُوسرے مہادیپ (Continent) میں بیٹھے ہتھِیاراُں کی تِجارت کر رہے ہیں ۔ ہمارے یہاں جو جمہوری حکمتیں ہیں اُنہیں اُن سؤداگراُں سے خبردار کرنا ہوگا ۔ یہ کام اَوام اؤر دانِشمںدوں کا ہے ۔ اَںگریجوں کے ژُل م کا بدلا لینے کے لیے مدن لال ڈیںگرا لںدن پہُںچ گیا تھا ۔ ہمے کہیں نہی جانا ہے ، بس اَپنی جمہوری تاقت کو کھالِس جمہورِیت میں تبدیل کرنا ہے ، تاکہ کوئی ہمارے اُوپر ہاتھ نہیں اُٹھا سکے ۔ ہم اَپنا فیصلہ خُد کریںگے اؤر پار لیامین ٹ سے پںچایت تک ہر جگہ اِسی جمہوری ذج بے کو کائم کریںگے ۔ ہمارے بُجُرگ شایر گوپال داس نیرج نے ایسے ہی حالات پے کہا ہے ،

آگ بہتی ہے یہاں گںگا میں بھی جھیلم میں بھی

کوئی بتلائے کہاں جاکر نہاےا جائے

لیکِن اُمّید کبھی خت م نہیں ہوتی ، نیرج نے لِکھا ہے ،

لے مشالیں چل پڑے ہیں لوگ میرے گاںو کے

اَب اَںدھیرا جیت لیںگے لوگ میرے گاںو کے ۔

کھُدا کھیر کرے ، پھِر مِلیں گے ۔

कोई टिप्पणी नहीं: